پاکستان میں تنگ پٹڑی کی تاریخ ،ملک کے طول و عرض میں بچھائے جانے والےریل ٹریکس کی کہانی
گنگا پور سے بُچیانہ تک بچھائی گئی پٹڑی کا جو ایک وقت تک پاکستان میں موجود سب سے تنگ پٹڑی تھی،عظیم شاہ بخاری

.webp&w=3840&q=75)
تیسری اور آخری قسط
میٹر گیج:
ریلوے ٹریک کا یہ گیج تنگ گیج کی ہی ایک قسم ہے جس میں دو پٹڑیوں کا درمیانی فاصلہ صرف 1 میٹر ہوتا ہے۔ اگرچہ دنیا بھر میں یہ ٹریک انتہائی کم ہیں لیکن سوئٹزرلینڈ اور اسپین جیسے ملک سیاحتی مقاصد کے لیئے انہیں اب بھی استعمال کر رہے ہیں۔ ویتنام، ملائیشیا اور تھائی لینڈ میں میٹر گیج ہی استعمال کیا جاتا ہے۔
پاکستان میں اس وقت صرف دو میٹر گیج لائنیں ہیں جو صوبہ سندھ میں واقع ہیں۔
آئیں ان کے بارے میں جانتے ہیں۔
میر پور خاص، نوابشاہ میٹر گیج اور جمراؤ – پتھارو لُوپ لائن:
میر پور خاص کو جنوب مشرقی سندھ میں ریلوے کے میٹر گیج نیٹ ورک کا مرکز کہا جا سکتا ہے۔ حیدر آباد سے شادی پلی براستہ میر پور خاص جانے والی لائن بھی پہلے میٹر گیج تھی جسے براڈ گیج میں تبدیل کر دیا گیا۔
قیامِ پاکستان کے بعد اس علاقے میں تین میٹر گیج لائنیں تھیں:
1میرپور خاص تا نواب شاہ جنکشن (شمالی لائن)
2- میر پور خاص تا کھوکھرا پار (مشرقی لائن، جو اب بھی زیر استعمال ہے۔ اسے 2006 میں براڈ گیج میں تبدیل کر دیا گیا تھا)۔
3 جمراؤ – پتھورو لوپ لائن ( جنوبی لائن)۔
ان میں سے پہلا اور تیسرا ٹریک اب بند کر دیا گیا ہے۔
قریباً 130 کلومیٹر طویل میر پور خاص، نواب شاہ میٹر گیج ریلوے لائن میر پور خاص جنکشن سے نوابشاہ جنکشن تک بچھائی گئی تھی جو اس خطے کی چند ایک میٹر لائنوں (ایک ہزار ملی میٹر) میں سے ایک تھی جہاں زیادہ تر بھاپ سے چلنے والے انجن دوڑا کرتے تھے۔ 1939 میں کھولی جانے والی اس لائن کا بنیادی مقصد اس خطے میں کپاس، آم، مرچوں اور تازہ سبزیوں کی ترسیل تھی۔
اس لائن پر لگ بھگ سترہ اسٹیشن واقع تھے جن میں میرپور خاص جنکشن، خان، نازک آباد، ناد آباد، بوبی روڈ، جھول، سنجھورو، راجر، کھڈرو، شاہ پور چکر، سرور نگر، ٹنڈو سرور، جام صاحب، گل بیگ مری، شفیع آباد اور نواب شاہ جنکشن شامل ہیں۔
مختلف فنی خرابیوں کی وجہ سے اس لائن کو اکیسویں صدی کے اوائل میں ہی بند کر دیا گیا تھا۔
میٹر گیج لُوپ لائن کی بات کریں تو 192 کلومیٹر لمبی یہ لائن، میر پور سے قریباً دس کلومیٹر دور جمراؤ کے مقام پہ الگ ہوتی تھی اور جنوب میں ایک دائرے کی صورت واپس مرکزی لائن پر پتھورو کے مقام پر مل جاتی تھی۔
یہ لائن جمراؤ، جھلوری، کچلو، جیمز آباد، ٹنڈو جان محمد، ڈگری، جھڈو، ناؤ کوٹ، بنی سر روڈ، کنری، سمارو روڈ سے ہو کر واپس مرکزی لائن پر واقع پتھورو سے جا ملتی تھی جو اس لوپ لائن کا شرقی کونہ بنتا ہے۔ یوں یہ لائن موجودہ میر پور خاص، تھرپارکر اور امر کوٹ کے اضلاع سے گزرتی تھی۔
اس ٹریک کو 2005 میں بند کر دیا گیا تھا۔
جون 2020 میں چھپنے والے اپنے ایک مضمون میں ''گیرتھ ڈیوڈ'' اس میٹر گیج لائن کے اپنے سفر کی دلچسپ باتیں بتاتے ہیں جو انہوں نے جون 2005 میں کیا تھا۔
اپنے پڑھنے والوں کے لیئے میں اس کا خلاصہ یہاں پیش کرنا چاہوں گا۔
سفر کے پہلے دو دن ہم پرانے برطانوی لوکوموٹیوز پہ کھوکھراپار گئے، تیسرے دن نوابشاہ اور آخری دو دن لوپ لائن پہ۔
صحرائے تھر کا زیادہ تر حصہ، جس سے میٹر گیج لائنیں گزرتی ہیں، بھارت میں واقع ہے اور یہ پاکستان کے ساتھ ایک قدرتی سرحد بناتا ہے۔ یہ دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا صحرائی خطہ ہے۔
میرپور خاص کے ارد گرد ریلوے کی ایک دلچسپ تاریخ ہے، جو کہ انیسویں صدی کے آخر میں کراچی کی ترقی سے متعلق ہے جو برطانیہ اور یورپ سے سمندری مال برداری کے لیئے ہندوستان کی قریب ترین بندرگاہ تھی۔
کراچی اور بمبئی کے درمیان براہ راست ریلوے روٹ کی عدم موجودگی میں، ہندوستان کے لیے مال بردار ٹریفک کو مشرق کی طرف جانے سے پہلے لاہور سے شمال میں 750 میل کا سفر کرنا پڑتا تھا، جس سے ہندوستان کے مغربی علاقوں جیسے گجرات، مہاراشٹرا اور راجستھان کے لیے ٹریفک کے پابند ہونے کی صورت میں کراچی کو بمبئی کے لیے کافی نقصان پہنچا۔
برطانوی حکومت حیدرآباد سے شادی پلی تک 55 میل (89 کلومیٹر) براڈ گیج لائن تعمیر کرنے پر کام شروع کیا اور یہ لائن اگست 1892 میں کھولی گئی۔ آٹھ سال بعد (1900) حکومت نے پھر ایک میٹر گیج لائن تعمیر کی جو مشرق کی طرف شادی پلی سے جودھ پور تک جاتی تھی اور ٹریفک کی روانی برقرار رکھنے کے لیئے حیدر آباد سے شادی پلی تک کے ٹریک کو بھی میٹر گیج میں بدل دیا گیا۔
میٹر گیج کی توسیع اگلی چار دہائیوں تک جاری رہی۔ 1909 میں میرپور خاص سے جھڈو تک 50 میل (80 کلومیٹر) لائن بنائی گئی، اور لوپ لائن 1935 میں مکمل ہوئی جب اس راستے کو پتھورو جنکشن تک 65 میل (104 کلومیٹر) تک بڑھایا گیا۔ ایک شمالی لائن 1912 میں کھدرو (50 میل) تک کھلی اور آخر کار 1939 میں نواب شاہ جنکشن تک پہنچ گئی۔
1965 کی پاک بھارت جنگ سے پہلے کھوکھروپار کے قریب سرحد کے پار میٹر گیج ٹرین کے ذریعے سفر کرنا ممکن تھا، لیکن اس تنازعے کے نتیجے میں سرحد بند ہو گئی اور بھارت نے کھوکھروپار اور مناباؤ کے درمیان چار میل طویل ٹریک کو ختم کر دیا۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان ریل لنک کو دوبارہ کھولنے کا معاہدہ 2004 میں طے پایا تھا، اور جودھ پور سے مناباؤ روٹ کو براڈ گیج میں تبدیل کرنے کے بعد اس بات پر اتفاق ہوا کہ میرپور خاص سے کھوکھروپار تک کی لائن کا گیج بھی تبدیل کیا جائے گا۔
میرے اس دورے سے کچھ ہی عرصہ پہلے اس لائن کو براڈ گیج میں تبدیل کرنے کا کام شروع ہو چکا تھا۔ بھارتی شہر موناباؤ سے ایک رابطہ ٹریک (جو کہ 1965 میں سرحد بند ہونے پر منقطع ہو گیا تھا) تعمیر کیا گیا اور امیگریشن خدمات فراہم کرنے کے لیے سرحد کے قریب ’زیرو پوائنٹ‘ کے نام سے ایک نیا اسٹیشن بنایا گیا۔
اکتالیس سال کے وقفے کے بعد 18 فروری 2006 کو سرحد پار ریل سروس دوبارہ شروع ہوئی، جب تھر ایکسپریس نے کراچی اور جودھ پور کے درمیان ہفتہ وار رابطہ بحال کیا، جس میں کراچی سے کھوکھروپار تک 237 میل (381 کلومیٹر) کا سفر صرف سات گھنٹے سے زیادہ کا تھا۔
میٹر گیج نیٹ ورک کے ختم ہونے سے پہلے یقینی طور پر ہمارا میرپور خاص کا آخری منظم سفر تھا، 2006 تک تمام سرگرمیاں روک دی گئیں، اور 8-2007 میں مون سون کے نقصان سے کسی بھی بحالی کی امیدیں ختم ہو گئیں۔
سب سے تنگ پٹڑی:
زکر ہے گنگا پور سے بُچیانہ تک بچھائی گئی پٹڑی کا جو ایک وقت تک پاکستان میں موجود سب سے تنگ پٹڑی تھی۔
یہ پنجاب کا منفرد ترین ٹریک ہے جسے محکمہ ریلوے کی طرف سے نہیں بلکہ نجی سرمایہ کاری سے بچھایا گیا تھا اور اسے کوئی انجن نہیں بلکہ گھوڑے کھینچتے تھے۔
بات ہو رہی ہے گھوڑا ٹرین کی جسے محسنِ پنجاب سر گنگا رام نے اپنے ذاتی سرمائے سے بچھایا تھا۔
اگرچہ انیسویں صدی کے اوائل میں پورے مغرب میں گھوڑوں سے چلنے والی ٹرینوں کا رواج تھا مگر آہستہ آہستہ ان کی جگہ بھاپ والے انجنوں نے لے لی۔ لیکن سر گنگا رام کی گھوڑا ٹرین آزادی کے بعد کئی دہائیوں تک چلتی رہی۔ یہ ٹرین لائل پور کے دو دیہاتوں، بُچیانہ اور گنگا پور کو آپس میں ملاتی تھی۔
جب سر گنگا رام کو برطانوی حکومت نے ان کی خدمات کے عوض نئی آباد کی گئی چناب کالونی (لائل پور) میں پانچ سو ایکڑ اراضی الاٹ کی تو اس پر انہوں نے گنگا پور کے نام سے ایک گاؤں بسایا۔ اسی گاؤں کو تین کلومیٹر دور منڈی بُچیانہ کے اسٹیشن سے ملانے کے لیئے 1898 میں دو فٹ کی پٹڑی بچھوائی جو نہ تو براڈ گیج میں آتی ہے نہ ہی میٹر گیج میں۔ یعنی سائز کے لحاظ سے یہ پاکستان کا منفرد ترین ٹریک تھا جو بنیادی طور پر ان کے فارم ہاؤس کے لیئے مشینری لانے کی غرض سے بچھایا گیا تھا لیکن عوام کو اس سے بہت فائدہ پہنچا۔
ریلوے کی تاریخ میں اپنی نوعیت کی یہ منفرد سواری 1998 تک چلتی رہی اور پھر مالی وجوہات کی وجہ سے بند کر دی گئی۔
ضلعی حکومت نے اس منصوبے کی تزئین و آرائش کی اور 2009 میں اسے دوبارہ کھولا لیکن محض 5 سال بعد اکتوبر 2014 میں اسے دوبارہ بند کر دیا گیا اور یہ آج تک بند ہے۔
اس ٹریک کی پٹڑی اب بھی کہیں نا کہیں ہماری ازلی بے حسی کے ثبوت کے طور پہ موجود ہے
یہ سب ٹریک ہماری حکومتوں اور ریلوے کی مجرمانہ غفلت اور بے حسی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ پاکستان اگر کوئی ترقی یافتہ ملک ہوتا تو آج ان ٹریکس کو سیاحتی مقاصد کے لیئے استعمال کر کے کثیر زر مبادلہ کما رہا ہوتا.
دوسری قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
https://gnnhd.tv/urdu/news/45627
پہلی قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
https://gnnhd.tv/urdu/news/45565
تحریر و تحقیق
ڈاکٹر محمد عظیم شاہ بخاری

بھارتی قابض افواج کی بربریت ،کشمیریوں پر زندگی کے تمام دروازے بند ،مغربی دنیا خاموش تماشائی
- 4 گھنٹے قبل

پہلگام واقعہ:وزیر اطلاعات اور ڈی جی آئی ایس پی آر آج سیاسی رہنماؤں کو بریفنگ دینگے
- 10 گھنٹے قبل

حوثیوں کا اسرائیلی ائیرپورٹ پر میزائل حملہ،8 افراد زخمی
- 8 گھنٹے قبل

حج آپریشن2025: 98 فیصد سرکاری عازمین کرام کو ویزے جاری کر دئیے گئے ہیں، ترجمان
- 6 گھنٹے قبل
پی ٹی آئی کا حکومتی بریفنگ میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ
- 5 گھنٹے قبل

مقبوضہ کشمیر: بھارتی فوجی گاڑی گہری کھائی میں جا گری،3 فوجی ہلاک
- 10 گھنٹے قبل

شہباز شریف کا ملائیشین ہم منصب سےٹیلیفونک رابطہ، بھارت کے اشتعال انگیز روئے سے آگاہ کیا
- 8 گھنٹے قبل

پہلگام واقعہ:اگر بھارت نے جارحیت کی توپاکستان دفاع میں جوہری اور روایتی طاقت استعمال کرے گا‘
- 10 گھنٹے قبل

برادر اسلامی ملک ترکیہ کا بحری جہاز خیر سگالی دورے پر کراچی پہنچ گیا
- 8 گھنٹے قبل

پہلگام واقعہ :پاکستان کا خطے کی صورتحال پر سلامتی کونسل کوباضابطہ بریفنگ دینے کا فیصلہ
- 7 گھنٹے قبل

وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کی جانب سے مستحق مسیحی خاندانوں میں ایسٹر گرانٹس کی تقسیم
- 10 گھنٹے قبل

پی ایس ایل:کراچی کنگز کا راویتی حریف لاہور قلندر ز کے خلاف ٹاس جیت کر باؤلنگ کا فیصلہ
- 7 گھنٹے قبل