Advertisement

یورپی یونین کا افغان شہریوں کی واپسی کے لیے طالبان حکومت سے ابتدائی رابطہ

خط پر دستخط کرنے والے ممالک میں آسٹریا، جرمنی، یونان، اٹلی، نیدرلینڈز، ناروے، پولینڈ اور سویڈن شامل ہیں، جو عام طور پر سخت امیگریشن پالیسیوں کے حامی سمجھے جاتے ہیں

GNN Web Desk
شائع شدہ 2 months ago پر Oct 20th 2025, 5:55 pm
ویب ڈیسک کے ذریعے
یورپی یونین کا افغان شہریوں کی واپسی کے لیے طالبان حکومت سے ابتدائی رابطہ

 

برسلز: یورپی یونین نے تصدیق کی ہے کہ اس نے ان افغان شہریوں کی واپسی کے سلسلے میں افغانستان میں طالبان حکومت سے تکنیکی سطح پر ابتدائی رابطے قائم کیے ہیں جن کی پناہ کی درخواستیں مسترد ہو چکی ہیں۔

یورپی کمیشن کے ترجمان مارکس لامرٹ نے برسلز میں پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ رکن ممالک کی درخواست پر طالبان حکومت سے تکنیکی نوعیت کے بات چیت کا عمل شروع کیا گیا ہے۔ ان کے بقول، "اس سال کے اوائل میں ہم نے افغانستان میں ڈی فیکٹو اتھارٹیز (طالبان حکومت) سے تکنیکی سطح پر ابتدائی بات چیت کا آغاز کیا۔"

یہ اقدام ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب بیلجیم کی قیادت میں 20 یورپی ممالک نے یورپی کمیشن کو خط لکھ کر مطالبہ کیا کہ ان افغان باشندوں کی جبری یا رضاکارانہ واپسی ممکن بنائی جائے جنہیں یورپ میں قیام کی اجازت نہیں ملی۔

خط پر دستخط کرنے والے ممالک میں آسٹریا، جرمنی، یونان، اٹلی، نیدرلینڈز، ناروے، پولینڈ اور سویڈن شامل ہیں، جو عام طور پر سخت امیگریشن پالیسیوں کے حامی سمجھے جاتے ہیں۔

بیلجیم کی وزیر برائے امیگریشن اینلین وین بوسوٹ نے کہا، "ہم غیرقانونی طور پر مقیم افغان شہریوں کو، حتیٰ کہ سزا یافتہ افراد کو بھی، واپس نہیں بھیج سکتے۔ یہ صورت حال عوامی اعتماد کو مجروح کر رہی ہے اور اجتماعی سلامتی کے لیے خطرہ بن چکی ہے۔"

یورپی یونین کے حالیہ اعداد و شمار کے مطابق، ملک بدری کے احکامات حاصل کرنے والے صرف 20 فیصد افراد کو ان کے آبائی ممالک واپس بھیجا جا رہا ہے، جس پر رکن ممالک تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔

فی الوقت یورپی یونین کی افغانستان میں محدود سفارتی موجودگی برقرار ہے، اور زیادہ تر رابطے انسانی امداد اور تکنیکی تعاون تک محدود ہیں۔

Advertisement