جی این این سوشل

پاکستان

بشریٰ بی بی کی اڈیالہ جیل منتقلی کی درخواست عدم پیروی پر خارج

شری بی بی کے وکلا خود بھی نہیں چاہتے کہ وہ جیل چلی جائیں، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب

پر شائع ہوا

کی طرف سے

بشریٰ بی بی کی  اڈیالہ جیل منتقلی کی درخواست عدم پیروی پر خارج
جی این این میڈیا: نمائندہ تصویر

اسلام آباد ہائیکورٹ نے بشریٰ بی بی کی بنی گالہ سب جیل سے اڈیالہ جیل منتقلی کی درخواست عدم پیروی پر خارج کر دی ہے۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے بشریٰ بی بی کی سب جیل بنی گالہ سے اڈیالہ جیل منتقلی کی درخواست پرسماعت کرتے ہوئے کہا کہ بشری بی بی کے وکلا خود بھی نہیں چاہتے کہ وہ جیل چلی جائیں، گزشتہ سماعت پر کہا تھا کہ آئندہ تاریخ پر فیصلہ کروںگا پھر بھی پیش نہیں ہوئے۔

بشریٰ بی بی کی جانب سے کوئی بھی وکیل عدالت میں پیش نہ ہوا، وکلا کی عدم پیشی پرعدالت نے برہمی کا اظہارکرتے ہوئے استفسار کیا کہ بشریٰ بی بی کے وکلا عدالت میں پیش کیوں نہیں ہوئے؟

عدالت نے کہا کہ اگر وہ یہ کیس جیت جاتے تو بشریٰ بی بی جیل چلی جاتیں، وہ خود بھی نہیں چاہتے کہ بشریٰ بی بی جیل چلی جائیں ، مذاق بنایا ہوا ہے۔

سرکاری وکیل نے عید پر بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کی ملاقات کا بتایا تو جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ دونوں جانب سے عدالت کے ساتھ سیاست کھیلی جا رہی ہے۔

درخواست خارج ہونے کے کچھ دیر بعد بشریٰ بی بی کے وکیل عثمان گِل عدالت پہنچ گئے، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ گل صاحب آپ کی درخواست عدم پیشی پر خارج کر دی ہے، اب آپ درخواست بحالی کی درخواست دے سکتے ہیں۔

عثمان گِل ایڈووکیٹ نے مؤقف اپنایا کہ ہم پٹیشن بحالی کی درخواست ابھی تھوڑی دیر میں دائر کر رہے ہیں۔

یاد رہے کہ  31 جنوری کو توشہ خانہ کیس میں سزا یافتہ سابق وزیر اعظم و بانی چیئرمین تحریک انصاف کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو بنی گالہ منتقل کرکے رہائش گاہ کو سب جیل قرار دے دیا گیاتھا ۔

بعدازاں 6 فروری کو بشریٰ بی بی نے سب جیل قرار دی گئی بنی گالہ سے واپس اڈیالہ جیل منتقلی کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیاتھا۔

پاکستان

نیب نے شاہد خاقان عباسی کےخلاف ایل این جی ریفرنس واپس لے لیا

احتساب عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے شاہد خاقان عاسی سمیت دیگر ملزمان کو بری کر دیا

پر شائع ہوا

ویب ڈیسک

کی طرف سے

نیب نے شاہد خاقان عباسی کےخلاف ایل این جی ریفرنس واپس لے لیا

قومی احتساب بیورو (نیب) نے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے خلاف ایل این جی نیب ریفرنس واپس لے لیا۔

اسلام آباد کی احتساب عدالت نے جج ناصر جاوید نے شاہد خاقان عباسی اور دیگر کیخلاف نیب ریفرنس کی سماعت کی۔

قومی احتساب بیورو (نیب ) کی جانب سے شاہد خاقان عباسی کے خلاف ایل این جی ریفرنس واپس لینے کی استدعا کی گئی۔ڈپٹی پراسیکیوٹر اظہر محمود نے کہا کہ نیب شاہد خاقان عباسی و دیگر کے خلاف ریفرنس واپس لے رہا ہے۔

بعد ازاں عدالت نے نیب کی جانب سے شاہد خاقان عباسی کے خلاف ایل این جی ریفرنس واپس لینے کی درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے شاہد خاقان سمیت دیگر ملزمان کو بری کر دیا۔

واضح رہے کہ شاہد خاقان عباسی سمیت دیگر کے خلاف ایل این جی ر یفرنس چند سال قبل دائر کیا گیا تھا۔

پڑھنا جاری رکھیں

تجارت

اسٹیٹ بینک کو آئی ایم ایف کی جانب سے 1.1 ارب ڈالر موصول ہو گئے

آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ نے اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ کے تحت دوسرا جائزہ مکمل کر لیا

پر شائع ہوا

ویب ڈیسک

کی طرف سے

اسٹیٹ بینک کو  آئی ایم ایف کی جانب سے 1.1 ارب ڈالر موصول ہو گئے

اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی جانب سے 1.1 ارب ڈالر موصول ہو گئے، آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ نے اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ کے تحت دوسرا جائزہ مکمل کر لیا۔

آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کی جانب سے اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ کے تحت پاکستان کے لیے ایک ارب 10 کروڑ ڈالر کی آخری قسط جاری کرنے کی منظوری کے بعد اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو یہ رقم موصول ہوگئی ہے۔ اس رقم کی وصولی کے بعد دونوں فریقین کے مابین اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ معاہدہ مکمل ہوگیا۔

اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ معاہدے کے تحت پاکستان کو 3 ارب ڈالر ملنے تھے تاہم پاکستان کو 1.9 ارب ڈالر آئی ایم ایف سے پہلے مل چکے ہیں۔ حکومت پاکستان اب آئندہ 3 سال کے لیے نئے پروگرام کے لئے آئی ایم ایف سے مذاکرات کی کوشش کر رہی ہے جبکہ آئی ایم وفد اب پاکستان کا دورہ بھی کرے گا۔

یاد رہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ نئے قرض پروگرام کے لیے معاشی ٹیم کے مذاکرات آئندہ ماہ ہوں گے۔نئے قرض پروگرام کے تحت مذاکرات کیلئے آئی ایم ایف وفد آئندہ ماہ کے وسط میں پاکستان پہنچے گا۔

پڑھنا جاری رکھیں

پاکستان

جو جج دباؤ برداشت نہیں کر سکتا اسے کرسی چھوڑ دینی چاہیے، جسٹس مسرت ہلالی

جب کوئی جج بولتا ہے اس کے خلاف بدنام کرنے کی مہم چلائی جاتی ہے، جسٹس اطہر من اللہ

پر شائع ہوا

ویب ڈیسک

کی طرف سے

جو جج دباؤ برداشت نہیں کر سکتا اسے کرسی چھوڑ دینی چاہیے، جسٹس مسرت ہلالی

جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ جو جج دباؤ برداشت نہیں کر سکتا اسے کرسی چھوڑ دینی چاہیے

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں چھ رکنی لارجر بنچ نے چھ ججز کے خط پر ازخود نوٹس کی سماعت کی۔بینچ میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس نعیم اختر افغان شامل ہیں۔

چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ کمیٹی نے فیصلہ کیا تھا کہ تمام دستیاب ججز کیس سنیں گے، جسٹس یحییٰ آفریدی بینچ سے الگ ہو گئے، فل کوٹ کے لئے 2 ججز دستیاب نہیں ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ چیف جسٹس بننےکےبعد فل کورٹ بنائی، پارلیمنٹ کاشکرگزارہوں جس نے پریکٹس اینڈ پروسیجر بنائے، اب معاملہ یہ ہے آگے کیسے بڑھاجائے اگر کوئی تجاویزہیں توسامنے لائیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ جو نکات بتائے گئے ہیں ان پر آئین کے مطابق ہائیکورٹ خود اقدامات نہیں کر سکتی؟۔ کیا آپ نے ہائیکورٹ کی بھیجی گئی تجاویز پڑھیں؟ جس پر انہوں نے جواب دیا کہ ابھی میں نے تجاویز نہیں پڑھیں۔ چیف جسٹس ریمارکس دیئے کہ ہائیکورٹ کی بھیجی گئی تجاویز کو سراہنا چاہئے۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ یہ تجاویز نہیں بلکہ چارج شیٹ ہیں۔

بعد ازاں اٹارنی جنرل نے عدالت میں ہائی کورٹ کی سفارشات پڑھ کر سنائی۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ ہم نے ہائیکورٹ کے کام میں مداخلت نہیں کرنی، ماضی میں ہائی کورٹس کے کام میں مداخلت کے نتائج اچھے نہیں نکلے۔

جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کہہ رہے ہیں کہ مداخلت تسلسل کے ساتھ ہوتی ہے، کیا اسلام آباد ہائیکورٹ کی تجاویز متفقہ ہیں؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ جی ہاں بظاہر متفقہ نظر آ رہی ہیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کیا کہ اس کا مطلب ہے کہ کسی جج نے اختلاف نہیں کیا۔

سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کی بھجوائی گئی تجاویز پبلک کرنے کا حکم دے دیا۔

چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ ہر چیز ہی میڈیا پر چل رہی ہے تو ہم بھی پبلک کر دیتے ہیں، انہوں نے دریافت کیا کہ کیا جو نکات بتائے گئے ان پر آئین کے مطابق ہائی کورٹ خود اقدامات نہیں کر سکتی؟ جس پر اٹارنی جنرل نے چیف جسٹس سے کہا کہ ہائیکورٹ بالکل اس پر خود اقدامات کر سکتی ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ جسٹس اعجاز اسحٰق نے تجاویز کے ساتھ اضافی نوٹ بھی بھیجا ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ جسٹس اعجاز کا اضافی نوٹ بھی پڑھیں، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کون کون سے نکات ہیں جن پر ہائیکورٹ خود کارروائی نہیں کر سکتی؟ جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ سب نکات پر خود ہائیکورٹ کارروائی کر سکتی ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ تو پھر کیا سپریم کورٹ ہائیکورٹس کو ہدایات دے سکتی ہے؟

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ ہمیں ہائیکورٹ کی بھجوائی تجاویز کو سراہنا چاہیے، کوئی جواب نہیں ہوگا تو ججز بے خوف نہیں ہوں گے، ہمیں اس نکتے کو دیکھنا چاہیے جو ہائیکورٹ ججز اٹھا رہے ہیں، انہوں نے منصور اعوان کو ہدایت دی کہ آپ جسٹس اعجاز کا نوٹ پڑھیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں ہائیکورٹس کی تجاویز تک ہی محدود رہنا چاہیے ہر کسی کی بھیجی گئی چیزوں پر نہیں۔

جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ اٹارنی جنرل ججز کو سراہنے کیلئے اسے آن ریکارڈ پڑھ دیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بتایا کہ میں جب سے چیف جسٹس بنا ایک بھی مداخلت کا معاملہ میرے پاس نہیں آیا، ہم کسی صورت عدلیہ میں مداخلت نہیں کرنے دیں گے، جو ماضی میں ہوا سو ہوا اب ہمیں آگے بڑھنا ہو گا، ماتحت عدلیہ بارز کے صدور ججز کے چیمبر میں بیٹھتے ہیں، کیا یہ مداخلت نہیں؟

اس موقع پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ایک جج کی ذاتی معلومات سوشل میڈیا پر افشاں کی گئیں، ایک جج کے گرین کارڈ کا ایشو اٹھایا گیا۔

اس پر جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ ہائیکورٹ کے ججز کو چھوڑیں ہمارے ساتھ جو ہو رہا ہے اس کا کیا؟

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ 2018 میں ہمارے اوپر تنقید ہوتی رہی لیکن ہم نے کبھی اس پر کچھ نہیں کہا، ججز کا ڈیٹا جو کہ حکومتی اداروں نادرا اور امیگریشن ڈیپارٹمنٹ کے پاس ہے وہ لیک ہو تو یہ درست نہیں، جج کو یہ کہنا کہ تمہارا بچہ کہاں پڑھتا ہے یہ صرف ایگزیکٹو کر سکتی ہے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے بتایا کہ بنچ کے دو ممبران کو ٹارگٹ کیا گیا، ہم نے نوٹس لیا کہ ہمارے ساتھ کیا ہو رہا ہے، فیصلہ ایک نہیں دس دے دیں کیا ہوگا؟

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آج اس مسئلے کو حل نہ کیا تو بہت نقصان ہوگا۔

جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے کہ یہ جو تجاویز دی گئی ہیں یہ سب ہائی کورٹ خود کیوں نہیں کرتے، سپریم کورٹ سے اجازت کیوں لے رہے ہیں؟

جسٹس منصور علی شاہ نے بتایا کہ مسائل اندرونی ہوں یا بیرونی آج موقع ہے حل کریں، ہائی کورٹس کے پاس تمام اختیارات تھے، توہین عدالت کا بھی اختیار تھا، ایک نظام بنانا ہے اور ملک کی ہر عدالت کو مضبوط کرنا ہے، ڈسٹرکٹ جوڈیشری نے تجاویز لکھتے وقت بڑی جرات دکھائی ہے، یہ اس مقدمے اور اس سوموٹو کیس کے ثمرات ہیں۔

جسٹس منصور علی کا مزید کہنا تھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے فون رکھ کر بات کرو یہ کس قسم کا کلچر ہے؟ مجھے کوئی دیکھ رہا ہے مجھے کوئی نوٹ کر رہا ہے اس کمرے میں ڈیوائس لگی ہے یہ کیوں ہوتا ہے، کیا ایسا ہونا چاہیے؟ کیا ایک جمہوری ملک میں ایسا کلچر ہونا چاہیے؟

جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ جو جج دباؤ برداشت نہیں کر سکتا اسے کرسی چھوڑ دینی چاہیے، چیف جسٹس نے بتایا کہ میں 5 سال ایک ماہ بلوچستان ہائی کورٹ کا چیف جسٹس رہا، معلوم ہے کتنی مداخلت ہوتی ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ میں اسلام آباد ہائی کورٹ کا چیف جسٹس رہا ہوں کبھی میرے یا کسی اور جج کے کام میں مداخلت نہیں کی گئی۔

جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ میرے لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے دوران کبھی مداخلت نہیں ہوئی۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ انٹیلیجنس ایجنسیاں وزیراعظم کے ماتحت ہوتی ہیں، انٹیلی جنس ادارے کچھ کرتے ہیں تو اس کے ذمہ دار وزیر اعظم اور ان کی کابینہ ہے، آئین دیکھ لیں کچھ بھی آزادانہ نہیں ہوتا، ہمیں اپنی آرمڈ فورسز کی ساکھ بھی برقرار رکھنی ہے، یہ ہماری ہی مسلح افواج ہے، ملک کے محافظ ہیں، یہ ہمارے سپاہی ہیں جو ملک کا دفاع کرتے ہیں۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کیا کہ فیض آباد دھرنا فیصلے کے خلاف کس کس نے نظر ثانی درخواستیں دائر کی؟ اب میں آپ کو بتاتا ہوں کہ اندرونی مداخلت کیسے ہوتی ہیں، چار سال سے زائد عرصے تک نظر ثانی درخواست سماعت کے لیے مقرر ہی نہیں ہوئی، کوئی وضاحت ہے کہ کیوں تقریباً پانچ سال سماعت کیلئے مقرر نہیں ہوئی؟ کیا اس کیلئے بھی ایگزیکٹو ذمہ دار ہے؟۔

جسٹس فائز عیسٰی نے کہا کہ یہاں پارلیمنٹ کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے، دنیا کو کیا نہیں پتہ تھا کہ اس وقت پاکستان کو چلا کون رہا تھا؟ مگر شاید آپ لوگوں نے انہیں بچانا تھا یا شاید نہیں۔

انہوں نے کہا کہ میری ذات پر انگلی نا اٹھائیں، میں نے لکھ کر دیا تھا کہ جنرل فیض حمید اس کے پیچھے تھے، یہ معاملہ اس وقت کی حکومت پر چھوڑ دیا گیا، میری اہلیہ نے بھی پولیس سٹیشن میں اپنا بیان ریکارڈ کروایا تھا، جب لوگ پٹری سے ہٹ جائیں تو پھر قانون سازی کی ضرورت پڑ جاتی ہے، حکومت آخر کب قانون سازی کرے گی؟

چیف جسٹس پاکستان نے بتایا کہ جب تک پارلیمان مضبوط نہیں ہوگی دوسری طاقتیں مضبوط بنتی جائیں گی۔

جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ انٹیلی جنس ایجنسی ادارے کس قانون کے تحت وجود میں آئے ہیں اور اگر مداخلت کرتے ہیں تو ان کے خلاف کیا ایکشن لیا جا سکتا ہے؟

جسٹس اطہر من اللہ نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ آپ نے پچھلی سماعت پر کہا کہ 2017-2018 میں سیاسی انجینئرنگ ہو رہی تھی، اس وقت حکومت میں کون تھا؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ اس وقت مسلم لیگ (ن) کی حکومت تھی۔

جسٹس اطہر من اللہ نے دریافت کیا کہ آپ کہنا چاہ رہے ہیں کہ وہ حکومت بے بس تھی؟

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ بیوروکریسی کو بھی فون آتے ہیں کچھ کام کر دیتے ہیں کچھ نہیں کرتے، جو نہیں کرتے او ایس ڈی بنا دیئے جاتے ہیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ دباؤ کبھی بھی نہیں ہوگا اگر عدلیہ اپنے دروازے نہ کھولے۔

جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ جو دروازے کھولتے ہیں ان کے خلاف مس کنڈکٹ کا کیس ہونا چاہیے، سب جج چیف جسٹس کی طرح جرات مند نہیں، کچھ میرے جیسے بھی ہوتے ہیں۔

جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ جب کوئی جج بولتا ہے اس کے خلاف بدنام کرنے کی مہم چلائی جاتی ہے، جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا اتنا بڑا فیصلہ آیا حکومت نے کیا کیا؟

اس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ اس میں کئی سابق ججز بھی ملوث ہیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ جو بھی ملوث ہو اگر سابق چیف جسٹس بھی ملوث ہیں ان کے خلاف بھی ایکشن لیں، جب کوئی جج سچ بولتا ہے تو اس کے خلاف ریفرنس دائر ہو جاتے ہیں۔

چیف جسٹس نے بتایا کہ وہ ریفرنس ہمارے پاس ہی آتے ہیں، ہمارے پاس میکانزم ہے، ہمیں اپنی اتنی بری تصویر پیش نہیں کرنی چاہیے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے مزید کہا کہ آپ نے تین ہائی کورٹس کی تجاویز پڑھیں، کسی نے نہیں کہا کہ مداخلت نہیں ہو رہی، اس کا مطلب ہے کہ مداخلت ہو رہی ہے۔

پڑھنا جاری رکھیں

ٹرینڈنگ

Take a poll