ججز ٹرانسفر کیس، اٹارنی جنرل کے دلائل مکمل، درخواستیں مسترد کرنے کی استدعا
عدالت نے کیس کی مزید سماعت 29 مئی تک ملتوی کر دی، آئندہ سماعت پر منیر اے ملک جواب الجواب دلائل کا آغاز کریں گے


اسلام آباد :پاکستان سپریم کورٹ میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز تبادلہ کیس میں اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل مکمل کرتے ہوئے استدعا کی ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ ججز کی درخواست کو میرٹ پر مسترد کیا جائے جبکہ دیگر درخواستوں کو ناقابلِ سماعت قرار دے کر خارج کیا جائے۔
سپریم کورٹ کے جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں 5 رکنی آئینی بینچ نے اسلام آباد ہائیکورٹ ججز ٹرانسفر و سنیارٹی کیخلاف درخواستوں پر سماعت کی۔
دوران سماعت ٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں ٹرانسفرنگ ججز کی نئی تقرری نہیں ہوئی اور ان ججز کو نئے حلف کی بھی ضرورت نہیں، سپریم کورٹ قرار دے چکی ہے کہ سنیارٹی تقرری کے دن سے شروع ہوگی۔
جس پر جسٹس شکیل احمد نے سوال اٹھایا کہ سیکرٹری لاء نے ٹرانسفرنگ ججز کی حلف نہ اٹھانے کی وضاحت کیوں دی؟ جس پر اٹارنی جنرل نے وضاحت کی کہ ایڈوانس کی منظوری کے بعد ججز کے نوٹیفکیشن میں ابہام نہ ہو، اس لیے وضاحت دی گئی۔
اٹارنی جنرل نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کی ججز کی سنیارٹی کا تعین چیف جسٹس عامر فاروق نے کیا, جسٹس عامر فاروق سنیارٹی کے تعین میں مکمل آزاد تھے، 4 ہائیکورٹ کے چیف جسٹسز اور رجسٹرار کی رپورٹ میں ججز تبادلہ پر کوئی سوال نہیں اٹھایا گیا، 5 ججز کی ریپریزنٹیشن پر جسٹس عامر فاروق نے فیصلہ دیا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ ججز کی ریپریزنٹیشن اور فیصلے کو درخواست گزار وکلاء نے دلائل میں ذکر تک نہیں کیا، اور کسی نے ریپریزنٹیشن اور فیصلے کو پڑھا نہ ہی دلائل دیے،جس پرجسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ ریپریزنٹیشن میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز نے کیا استدعا کی تھی؟ جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ججز نے ٹرانسفرنگ ججز کے دوبارہ حلف اٹھانے پر سنیارٹی کے تعین کی استدعا کی تھی، جسٹس مظہر نے کہا کہ عدالت کو درخواست گزار ججز کے وکلاء نے تمام باتیں نہیں بتائیں۔
اٹارنی جنرل نے آئین کے آرٹیکل 200 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ججز ٹرانسفرز کا طریقہ اس آرٹیکل میں واضح ہے اور اس پر ویٹو پاور عدلیہ کو دی گئی ہے، ایگزیکٹیو کو نہیں، ججز کے ٹرانسفر کے وقت تمام چیف جسٹسز نے اپنی آمادگی ظاہر کی تھی۔
جسٹس صلاح الدین پنہور نے ریمارکس دیے کہ سنیارٹی کے معاملے پر کسی چیف جسٹس سے رائے نہیں لی گئی، اٹارنی جنرل نے موقف اختیار کیا سنیارٹی کوئی ایسا معاملہ نہیں تھا جو چیف جسٹسز کے علم میں لایا جاتا، سنیارٹی کے معاملے کو طے کرنا اس وقت کے چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کا اختیار تھا۔
جسٹس نعیم اختر افغان نے سوال اٹھایا کہ ججز کے ٹرانسفر کے حوالے سے کون سا اصول اپنایا گیا اور کیوں جسٹس سرفراز ڈوگر کو ٹرانسفر کے لیے چنا گیا؟ انہوں نے نشاندہی کی کہ جسٹس ڈوگر لاہور ہائیکورٹ میں سنیارٹی میں 15ویں نمبر پر تھے اور اسلام آباد ہائیکورٹ میں پہلے نمبر پر آ گئے۔
جسٹس صلاح الدین کا کہنا تھا کہ دوسرے ہائیکورٹس سے ججز ٹرانسفر ہو کر آئے تو اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کو سنیارٹی طے کرنے کا اختیار نہیں تھا، جبکہ اٹارنی جنرل نے مؤقف اختیار کیا کہ چونکہ ججز اسلام آباد ہائیکورٹ میں ٹرانسفر ہو چکے تھے، اس لیے چیف جسٹس ہی مجاز تھے۔
جسٹس صلاح الدین نے کہا کہ یہ طے ہونا ابھی باقی ہے کہ ٹرانسفر شدہ ججز اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز ہیں یا پرانی ہائیکورٹس کے، جسٹس شکیل احمد نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ تین سوالات پر عدالت کی معاونت کی جائے، اگر یہ ٹرانسفرز مستقل ہیں تو ججز کی تعیناتی آئین کے آرٹیکل 175 اے کے ذریعے ہونی چاہیے۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ بلوچستان ہائیکورٹ سے جو ججز ٹرانسفر ہوئے، وہ ایڈیشنل ججز ہیں، اور سوال اٹھایا کہ ان کی کارکردگی کو کون جانچے گا، بلوچستان ہائیکورٹ یا اسلام آباد ہائیکورٹ کا چیف جسٹس؟ انہوں نے یہ بھی پوچھا کہ ٹرانسفر کے بعد اسلام آباد ہائیکورٹ کی ججز انتظامی کمیٹی پر کیا اثر پڑا؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ اٹھارہویں ترمیم میں آرٹیکل 175 اے شامل ہوا مگر آئین سازوں نے آرٹیکل 200 کو نہیں نکالا، انہوں نے کہا کہ یہ قابل قبول نہیں کہ آرٹیکل 175 اے کے بعد ججز کا آرٹیکل 200 پر تبادلہ نہ ہو سکے۔
جسٹس شکیل احمد نے کہا کہ ججز کا تبادلہ آرٹیکل 200 کے تحت عوامی مفاد میں ہوگا، اور پوچھا کہ یہاں ججز کے تبادلہ میں عوامی مفاد کیا تھا کیونکہ نوٹیفکیشن میں اس کا ذکر نہیں، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ججز کے ٹرانسفر پر سیفٹی وال لگا ہے۔
جسٹس نعیم افغان نے سوال کیا کہ کیا آرٹیکل 200 کے ذیلی سیکشن 1 اور 2 کو ایک ساتھ پڑھا جائے اور آیا تبادلہ عبوری ہوگا؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ عارضی تبادلے کی صورت میں اضافی الاونسز ملتے ہیں جبکہ مستقل تبادلہ ہو تو کوئی اضافی الاونس نہیں ملتا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ذیلی سیکشن کی زبان واضح نہیں ہے اور نوٹیفکیشن میں یہ ذکر بھی نہیں کہ ٹرانسفر مستقل ہے یا عارضی۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ٹرانسفر ججز میں کسی نے عارضی یا مستقل ٹرانسفر کا اعتراض نہیں اٹھایا اور تمام سے مستقل ٹرانسفر کی رضامندی لی گئی تھی۔
سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے جوڈیشل کمیشن کے اجلاسوں کے منٹس آف میٹنگ بھی طلب کر لیے، جسٹس نعیم اختر افغان نے 17 جنوری اور 10 فروری کے جوڈیشل کمیشن اجلاسوں کی تفصیلات طلب کیں، جسٹس محمد علی مظہر نے اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ ان اجلاسوں میں کیا ہوا تھا؟
جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ 17 جنوری کے اجلاس میں اسلام آباد ہائیکورٹ میں دو ایڈیشنل ججز کی تقرری ہوئی جبکہ 10 فروری کے اجلاس میں جسٹس عامر فاروق کی سپریم کورٹ میں تقرری ہوئی۔
جسٹس افغان نے پوچھا کہ کیا 10 فروری کے اجلاس میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز لسٹ میں جسٹس ڈوگر بھی شامل تھے؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ جی، وہ لسٹ میں شامل تھے مگر ان کے نام پر غور نہیں ہوا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ کیا فیصل صدیقی نے بھی جواب الجواب دلائل دینے ہیں؟ جس پر معاون وکیل نے تصدیق کی کہ جی ہاں، فیصل صدیقی نے بھی دلائل دینے ہیں۔
عدالت نے کیس کی مزید سماعت 29 مئی تک ملتوی کر دی، آئندہ سماعت پر منیر اے ملک جواب الجواب دلائل کا آغاز کریں گے۔
لاہور رنگ روڈ پیدل عبور کرنے والے شہری پر مقدمہ درج، گرفتار
- ایک دن قبل

ریاست مخالف عناصر کو احتساب کا سامنا کرنا پڑے گا،خواجہ آصف
- 10 گھنٹے قبل
انڈر 19 ایشیا کپ: گروپ اے کے میچ میں پاکستان کی ملائیشیا کو 297 رنز سے شکست
- ایک دن قبل
ملک کے بیشتر حصوں میں موسم سرد اورابرآلودرہے گا
- 2 دن قبل

سونے کی فی تولہ قیمت میں کمی
- 14 گھنٹے قبل
پاک فوج کی توجہ اندرونی وبیرونی مسائل سے نمٹنے پرمرکوز ہے،فیلڈمارشل
- 15 گھنٹے قبل

فی تولہ سونے کی قیمت میں بڑا اضافہ
- 2 دن قبل
جاپان،شمال مشرقی خطے میں چھ اعشاریہ سات شدت کا زلزلہ
- 2 دن قبل

باکو سنیما بریز فلم فیسٹیول میں تین پاکستانی فلموں کی نمائش
- 14 گھنٹے قبل

بلوچیستان: بارکھان اور گرد و نواح میں زلزلے کے جھٹکے
- 10 گھنٹے قبل
پاکستان کےمشہور اسٹنٹ مین سلطان گولڈن نے دو نئے عالمی ریکارڈ اپنے نام کرلیے
- 11 گھنٹے قبل
وزیراعظم کا مذاکرات اورسفارت کاری کے ذریعے تنازعات کے پرامن حل پرزور
- 2 دن قبل



