جی این این سوشل

پاکستان

جو جج دباؤ برداشت نہیں کر سکتا اسے کرسی چھوڑ دینی چاہیے، جسٹس مسرت ہلالی

جب کوئی جج بولتا ہے اس کے خلاف بدنام کرنے کی مہم چلائی جاتی ہے، جسٹس اطہر من اللہ

پر شائع ہوا

کی طرف سے

جو جج دباؤ برداشت نہیں کر سکتا اسے کرسی چھوڑ دینی چاہیے، جسٹس مسرت ہلالی
جی این این میڈیا: نمائندہ تصویر

جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ جو جج دباؤ برداشت نہیں کر سکتا اسے کرسی چھوڑ دینی چاہیے

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں چھ رکنی لارجر بنچ نے چھ ججز کے خط پر ازخود نوٹس کی سماعت کی۔بینچ میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس نعیم اختر افغان شامل ہیں۔

چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ کمیٹی نے فیصلہ کیا تھا کہ تمام دستیاب ججز کیس سنیں گے، جسٹس یحییٰ آفریدی بینچ سے الگ ہو گئے، فل کوٹ کے لئے 2 ججز دستیاب نہیں ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ چیف جسٹس بننےکےبعد فل کورٹ بنائی، پارلیمنٹ کاشکرگزارہوں جس نے پریکٹس اینڈ پروسیجر بنائے، اب معاملہ یہ ہے آگے کیسے بڑھاجائے اگر کوئی تجاویزہیں توسامنے لائیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ جو نکات بتائے گئے ہیں ان پر آئین کے مطابق ہائیکورٹ خود اقدامات نہیں کر سکتی؟۔ کیا آپ نے ہائیکورٹ کی بھیجی گئی تجاویز پڑھیں؟ جس پر انہوں نے جواب دیا کہ ابھی میں نے تجاویز نہیں پڑھیں۔ چیف جسٹس ریمارکس دیئے کہ ہائیکورٹ کی بھیجی گئی تجاویز کو سراہنا چاہئے۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ یہ تجاویز نہیں بلکہ چارج شیٹ ہیں۔

بعد ازاں اٹارنی جنرل نے عدالت میں ہائی کورٹ کی سفارشات پڑھ کر سنائی۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ ہم نے ہائیکورٹ کے کام میں مداخلت نہیں کرنی، ماضی میں ہائی کورٹس کے کام میں مداخلت کے نتائج اچھے نہیں نکلے۔

جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کہہ رہے ہیں کہ مداخلت تسلسل کے ساتھ ہوتی ہے، کیا اسلام آباد ہائیکورٹ کی تجاویز متفقہ ہیں؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ جی ہاں بظاہر متفقہ نظر آ رہی ہیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کیا کہ اس کا مطلب ہے کہ کسی جج نے اختلاف نہیں کیا۔

سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کی بھجوائی گئی تجاویز پبلک کرنے کا حکم دے دیا۔

چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ ہر چیز ہی میڈیا پر چل رہی ہے تو ہم بھی پبلک کر دیتے ہیں، انہوں نے دریافت کیا کہ کیا جو نکات بتائے گئے ان پر آئین کے مطابق ہائی کورٹ خود اقدامات نہیں کر سکتی؟ جس پر اٹارنی جنرل نے چیف جسٹس سے کہا کہ ہائیکورٹ بالکل اس پر خود اقدامات کر سکتی ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ جسٹس اعجاز اسحٰق نے تجاویز کے ساتھ اضافی نوٹ بھی بھیجا ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ جسٹس اعجاز کا اضافی نوٹ بھی پڑھیں، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کون کون سے نکات ہیں جن پر ہائیکورٹ خود کارروائی نہیں کر سکتی؟ جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ سب نکات پر خود ہائیکورٹ کارروائی کر سکتی ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ تو پھر کیا سپریم کورٹ ہائیکورٹس کو ہدایات دے سکتی ہے؟

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ ہمیں ہائیکورٹ کی بھجوائی تجاویز کو سراہنا چاہیے، کوئی جواب نہیں ہوگا تو ججز بے خوف نہیں ہوں گے، ہمیں اس نکتے کو دیکھنا چاہیے جو ہائیکورٹ ججز اٹھا رہے ہیں، انہوں نے منصور اعوان کو ہدایت دی کہ آپ جسٹس اعجاز کا نوٹ پڑھیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں ہائیکورٹس کی تجاویز تک ہی محدود رہنا چاہیے ہر کسی کی بھیجی گئی چیزوں پر نہیں۔

جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ اٹارنی جنرل ججز کو سراہنے کیلئے اسے آن ریکارڈ پڑھ دیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بتایا کہ میں جب سے چیف جسٹس بنا ایک بھی مداخلت کا معاملہ میرے پاس نہیں آیا، ہم کسی صورت عدلیہ میں مداخلت نہیں کرنے دیں گے، جو ماضی میں ہوا سو ہوا اب ہمیں آگے بڑھنا ہو گا، ماتحت عدلیہ بارز کے صدور ججز کے چیمبر میں بیٹھتے ہیں، کیا یہ مداخلت نہیں؟

اس موقع پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ایک جج کی ذاتی معلومات سوشل میڈیا پر افشاں کی گئیں، ایک جج کے گرین کارڈ کا ایشو اٹھایا گیا۔

اس پر جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ ہائیکورٹ کے ججز کو چھوڑیں ہمارے ساتھ جو ہو رہا ہے اس کا کیا؟

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ 2018 میں ہمارے اوپر تنقید ہوتی رہی لیکن ہم نے کبھی اس پر کچھ نہیں کہا، ججز کا ڈیٹا جو کہ حکومتی اداروں نادرا اور امیگریشن ڈیپارٹمنٹ کے پاس ہے وہ لیک ہو تو یہ درست نہیں، جج کو یہ کہنا کہ تمہارا بچہ کہاں پڑھتا ہے یہ صرف ایگزیکٹو کر سکتی ہے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے بتایا کہ بنچ کے دو ممبران کو ٹارگٹ کیا گیا، ہم نے نوٹس لیا کہ ہمارے ساتھ کیا ہو رہا ہے، فیصلہ ایک نہیں دس دے دیں کیا ہوگا؟

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آج اس مسئلے کو حل نہ کیا تو بہت نقصان ہوگا۔

جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے کہ یہ جو تجاویز دی گئی ہیں یہ سب ہائی کورٹ خود کیوں نہیں کرتے، سپریم کورٹ سے اجازت کیوں لے رہے ہیں؟

جسٹس منصور علی شاہ نے بتایا کہ مسائل اندرونی ہوں یا بیرونی آج موقع ہے حل کریں، ہائی کورٹس کے پاس تمام اختیارات تھے، توہین عدالت کا بھی اختیار تھا، ایک نظام بنانا ہے اور ملک کی ہر عدالت کو مضبوط کرنا ہے، ڈسٹرکٹ جوڈیشری نے تجاویز لکھتے وقت بڑی جرات دکھائی ہے، یہ اس مقدمے اور اس سوموٹو کیس کے ثمرات ہیں۔

جسٹس منصور علی کا مزید کہنا تھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے فون رکھ کر بات کرو یہ کس قسم کا کلچر ہے؟ مجھے کوئی دیکھ رہا ہے مجھے کوئی نوٹ کر رہا ہے اس کمرے میں ڈیوائس لگی ہے یہ کیوں ہوتا ہے، کیا ایسا ہونا چاہیے؟ کیا ایک جمہوری ملک میں ایسا کلچر ہونا چاہیے؟

جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ جو جج دباؤ برداشت نہیں کر سکتا اسے کرسی چھوڑ دینی چاہیے، چیف جسٹس نے بتایا کہ میں 5 سال ایک ماہ بلوچستان ہائی کورٹ کا چیف جسٹس رہا، معلوم ہے کتنی مداخلت ہوتی ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ میں اسلام آباد ہائی کورٹ کا چیف جسٹس رہا ہوں کبھی میرے یا کسی اور جج کے کام میں مداخلت نہیں کی گئی۔

جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ میرے لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے دوران کبھی مداخلت نہیں ہوئی۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ انٹیلیجنس ایجنسیاں وزیراعظم کے ماتحت ہوتی ہیں، انٹیلی جنس ادارے کچھ کرتے ہیں تو اس کے ذمہ دار وزیر اعظم اور ان کی کابینہ ہے، آئین دیکھ لیں کچھ بھی آزادانہ نہیں ہوتا، ہمیں اپنی آرمڈ فورسز کی ساکھ بھی برقرار رکھنی ہے، یہ ہماری ہی مسلح افواج ہے، ملک کے محافظ ہیں، یہ ہمارے سپاہی ہیں جو ملک کا دفاع کرتے ہیں۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کیا کہ فیض آباد دھرنا فیصلے کے خلاف کس کس نے نظر ثانی درخواستیں دائر کی؟ اب میں آپ کو بتاتا ہوں کہ اندرونی مداخلت کیسے ہوتی ہیں، چار سال سے زائد عرصے تک نظر ثانی درخواست سماعت کے لیے مقرر ہی نہیں ہوئی، کوئی وضاحت ہے کہ کیوں تقریباً پانچ سال سماعت کیلئے مقرر نہیں ہوئی؟ کیا اس کیلئے بھی ایگزیکٹو ذمہ دار ہے؟۔

جسٹس فائز عیسٰی نے کہا کہ یہاں پارلیمنٹ کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے، دنیا کو کیا نہیں پتہ تھا کہ اس وقت پاکستان کو چلا کون رہا تھا؟ مگر شاید آپ لوگوں نے انہیں بچانا تھا یا شاید نہیں۔

انہوں نے کہا کہ میری ذات پر انگلی نا اٹھائیں، میں نے لکھ کر دیا تھا کہ جنرل فیض حمید اس کے پیچھے تھے، یہ معاملہ اس وقت کی حکومت پر چھوڑ دیا گیا، میری اہلیہ نے بھی پولیس سٹیشن میں اپنا بیان ریکارڈ کروایا تھا، جب لوگ پٹری سے ہٹ جائیں تو پھر قانون سازی کی ضرورت پڑ جاتی ہے، حکومت آخر کب قانون سازی کرے گی؟

چیف جسٹس پاکستان نے بتایا کہ جب تک پارلیمان مضبوط نہیں ہوگی دوسری طاقتیں مضبوط بنتی جائیں گی۔

جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ انٹیلی جنس ایجنسی ادارے کس قانون کے تحت وجود میں آئے ہیں اور اگر مداخلت کرتے ہیں تو ان کے خلاف کیا ایکشن لیا جا سکتا ہے؟

جسٹس اطہر من اللہ نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ آپ نے پچھلی سماعت پر کہا کہ 2017-2018 میں سیاسی انجینئرنگ ہو رہی تھی، اس وقت حکومت میں کون تھا؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ اس وقت مسلم لیگ (ن) کی حکومت تھی۔

جسٹس اطہر من اللہ نے دریافت کیا کہ آپ کہنا چاہ رہے ہیں کہ وہ حکومت بے بس تھی؟

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ بیوروکریسی کو بھی فون آتے ہیں کچھ کام کر دیتے ہیں کچھ نہیں کرتے، جو نہیں کرتے او ایس ڈی بنا دیئے جاتے ہیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ دباؤ کبھی بھی نہیں ہوگا اگر عدلیہ اپنے دروازے نہ کھولے۔

جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ جو دروازے کھولتے ہیں ان کے خلاف مس کنڈکٹ کا کیس ہونا چاہیے، سب جج چیف جسٹس کی طرح جرات مند نہیں، کچھ میرے جیسے بھی ہوتے ہیں۔

جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ جب کوئی جج بولتا ہے اس کے خلاف بدنام کرنے کی مہم چلائی جاتی ہے، جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا اتنا بڑا فیصلہ آیا حکومت نے کیا کیا؟

اس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ اس میں کئی سابق ججز بھی ملوث ہیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ جو بھی ملوث ہو اگر سابق چیف جسٹس بھی ملوث ہیں ان کے خلاف بھی ایکشن لیں، جب کوئی جج سچ بولتا ہے تو اس کے خلاف ریفرنس دائر ہو جاتے ہیں۔

چیف جسٹس نے بتایا کہ وہ ریفرنس ہمارے پاس ہی آتے ہیں، ہمارے پاس میکانزم ہے، ہمیں اپنی اتنی بری تصویر پیش نہیں کرنی چاہیے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے مزید کہا کہ آپ نے تین ہائی کورٹس کی تجاویز پڑھیں، کسی نے نہیں کہا کہ مداخلت نہیں ہو رہی، اس کا مطلب ہے کہ مداخلت ہو رہی ہے۔

پاکستان

از خود نوٹس :فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال سپریم کورٹ طلب

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی

پر شائع ہوا

ویب ڈیسک

کی طرف سے

از خود نوٹس :فیصل واڈا اور مصطفیٰ کمال سپریم کورٹ طلب

سپریم کورٹ میں سینیٹر فیصل واوڈا کی پریس کانفرنس پر لیے گئے از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے فیصل واوڈا اور مصطفٰی کمال سے 2 ہفتے میں جواب طلب کرلیا۔

ذرائع کے مطابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی، جسٹس عرفان سعادت اور جسٹس نعیم اختر بھی بنچ کا میں شامل تھے۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے فیصل واوڈا کی پریس کانفرنس کی تفصیلات طلب کرلیں۔ اس موقع پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ کے روبرو پیش ہوئے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے دریافت کیا کہ کیا آپ نے پریس کانفرنس سنی؟ توہین عدالت ہوئی یانہیں؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ مجھے جو ویڈیو ملی ہے اس کے متعلقہ حصے میں آواز نہیں تھی۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا یہ پریس کانفرنس توہینِ عدالت کے زمرے میں آتی ہے؟۔ کوئی مقدمہ اگر عدالت میں زیر التوا ہوتو اس پر رائے دی جاسکتی ہے؟۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اس سے کہیں زیادہ باتیں میرے خلاف کی گئیں۔ لیکن کیا آپ اداروں کی توقیر کم کرنا شروع کردیں گے۔ اگر میں نے کچھ غلط کیا تو مجھے کہیں، عدالت کو نہیں۔ وکلا، ججز اور صحافیوں سب میں ا چھے بُرے لوگ ہوتے ہیں۔ ہوسکتا ہے میں نے بھی اس ادارے میں 500 نقائص دیکھے ہوں۔ باپ کے گناہ کی ذمے داری بیٹے کو نہیں دی جاسکتی۔ کیا ایسی باتوں سے آپ عدلیہ کا وقار کم کرنا چاہتے ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ شفافیت لانے کی کوشش کی، اپنے اختیارات کم کیے، بندوق اٹھانے والا اور گالی دینے والا کمزور ترین شخص ہوتے ہیں۔ جس کے پاس دلیل ختم ہو، وہ بندوق اٹھاتا ہے یا گالی دیتا ہے۔ ایک کمشنر صاحب اٹھے اور کہا میں نے انتخابات میں دھاندلی کروائی۔ بھئی بتاؤ تو سہی چیف جسٹس کیسے دھاندلی کروا سکتا ہے؟۔ مذہب معاشروں میں ایسے الزامات نہیں لگائے جاتے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ادارے عوام کے ہوتے ہیں، اداروں کو بدنام کرنا ملک کی خدمت نہیں، اداروں میں کوتاہیاں ہوسکتی ہیں، میں کسی اور کا بوجھ برداشت نہیں کرسکتا، اگر میں نے کوئی غلط کام کیا ہے تو بتائیں، تنقید کریں، ہم ہر روز ہم اچھا کام کرنے کی کوشش کررہے ہیں، پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون پر عمل کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جس کے پاس دلائل ہوں گے وہ ہم ججز کو بھی چپ کرادے گا، میں نے اپنی ذات کے لیے نہیں بلکہ ادارے کے لیے حلف لیا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ فیصل واوڈا اور مصطفی کمال کو نوٹس جاری کرتے ہیں، دونوں کو بلا لیتے ہیں، ہمارے منہ پر آکر تنقید کر لیں۔

ریمارکس میں کہا کہ ملک کا ہر شہری عدلیہ کا حصہ ہے۔ جرمنی میں ہٹلر گزرا ہے، وہاں آج تک کوئی رو نہیں رہا۔ غلطیاں ہوئیں انہیں تسلیم کر کے آگے بڑھیں۔ اسکول میں بچے غطی تسلیم کرے تو استاد کا رویہ بدل جاتا ہے۔

بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت 5 جون تک ملتوی کرتے ہوئے فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال سے 2 ہفتے میں جواب طلب کرلیا۔

یاد رہے کہ فیصل واوڈا نے بدھ کو پریس کانفرنس کرکے اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔سینیٹر فیصل واوڈا نے کہا تھا کہ اب پاکستان میں کوئی پگڑی اچھالے گا تو ہم ان کی پگڑیوں کی فٹبال بنائیں گے۔

پڑھنا جاری رکھیں

پاکستان

جلائو گھیرائو کیس، عمرسرفراز چیمہ اور یاسمین راشدکی ضمانت منظور

لاہور کی انسداد دہشت گردی عدالت کے جج ارشد جاوید نے ڈاکٹر یاسمین راشد اور عمر چیمہ کی ضمانت کی درخواستوں پر سماعت کی

پر شائع ہوا

ویب ڈیسک

کی طرف سے

جلائو گھیرائو کیس، عمرسرفراز چیمہ اور یاسمین راشدکی ضمانت منظور

 انسداد دہشت گردی عدالت نے شیرپائو پل پر تقاریر اور جلائو گھیرائو کیس میں پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی) کے رہنماؤں عمر سرفراز چیمہ اور ڈاکٹر یاسمین راشد کی ضمانت منظور کرلی۔

انسداد دہشتگردی کی عدالت نے ڈاکٹر یاسمین راشد اور عمر سرفراز چیمہ کو5،5 لاکھ روپے کے مچلکے جمع کروانے کا حکم دیا۔

لاہور کی انسداد دہشت گردی عدالت کے جج ارشد جاوید نے ڈاکٹر یاسمین راشد اور عمر چیمہ کی شیر پائو پل پر تقاریر اور جلائو گھیرائو سے متعلق ضمانت کی درخواستوں پر سماعت کی۔ عدالت نے یاسمین راشد اور عمر چیمہ کی ضمانت بعد از گرفتاری منظور کرلی۔  ملزمان کے خلاف تھانہ سرور روڈ میں مقدمہ درج ہے۔

پی ٹی آئی رہنماؤں کو لاہورمیں جناح ہاؤس پر حملے اور جلاؤ اور گھیراؤ کے الزامات پر گرفتار کیا گیا تھا۔ دونوں رہنما زیر حراست ہیں۔

پڑھنا جاری رکھیں

کھیل

ہاکی کےکھیل کی بہتری کے لئے کوئی کسرنہیں چھوڑیں، وزیر اعظم

کھلاڑیوں کو محکموں میں دوبارہ شامل کرنے کی پالیسی پر ایک ہفتے میں عملدرآمد کیاجائے، شہباز شریف

پر شائع ہوا

ویب ڈیسک

کی طرف سے

ہاکی کےکھیل کی بہتری کے لئے کوئی کسرنہیں چھوڑیں، وزیر اعظم

وزیراعظم محمد شہبازشریف نے کہا ہے کہ مجھے یقین ہے کہ ہاکی کاکھیل دوبارہ عروج حاصل کرے گا،ہاکی کےکھیل کی بہتری کے لئے کوئی کسرنہیں چھوڑیں گے، کھلاڑیوں کو محکموں میں دوبارہ شامل کرنے کی پالیسی پر ایک ہفتے میں عملدرآمد کیاجائے۔

وزیراعظم ہائوس میں اذلان شاہ ہاکی ٹورنامنٹ کا فائنل کھیلنے والی قومی ہاکی ٹیم کے اعزازمیں تقریب سے خطاب کرتےہوئے شہباز شریف نے کہاکہ آج آپ کے سامنے مہمان خصوصی بن کر نہیں بلکہ آپ نے پاکستان کے نام کو ہاکی میدان میں بلند کرنے کے لئے دنیاکے سامنے جو شاندار کارکردگی پیش کی ہے اسے سراہنے کے لئے موجود ہوں۔ آج کی تقریب کے مہمان خصوصی قومی ہاکی ٹیم کے کپتان ، کھلاڑی ، فیڈریشن کے عہدیدار اور اولمپکس گیمزمیں حصہ لینے والے دوسرے کھلاڑی ہیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ سب کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتےہیں۔پوری قوم اس بات کی گواہی دے رہی ہے کہ اذلان شاہ ہاکی ٹورنامنٹ کے فائنل میں ہماری ہاکی ٹیم ہاری نہیں جیتی ہے ۔ پچھلے ڈیڑھ دو عشروں میں پاکستان میں ہاکی کا کھیل انحطاط کا شکار رہا ۔ سمجھ نہیں آتی تھی کہ کب وہ دن آئے گا جب پاکستان کے عوام آپ کی کارکردگی دیکھ کر صلاح الدین ، اختر رسول اور دوسرے مایہ نازکھلاڑیوں کو یاد کریں گے۔ ان عظیم کھلاڑیوں اور ہیروز نے پوری دنیا میں پاکستان کا پرچم بلند کیا۔

وزیراعظم نے کہاکہ مجھے یقین ہے کہ ہاکی کاکھیل دوبارہ عروج حاصل کرے گا۔میری خواہش ہے کہ ہاکی کے کھلاڑیوں کی کارکردگی ایسی ہو کہ ماضی کےہیروز آپ میں دکھائی دیں۔ ہاکی ٹیم کی مربوط کاوش آج رنگ لائی ہے، ہار جیت کھیلا کا حصہ ہے لیکن جس طریقے سے آپ نے مقابلہ کیا ہے وہ مستقبل میں جیت کی نوید ہے۔ شاندار کارکردگی پر ہاکی ٹیم کے کھلاڑیوں ، ان کے والدین ، کوچز اور منتظمین کو مبارکباد اور سلام پیش کرتاہوں۔ہاکی کے فروغ اور بحالی کے لئے وفاقی حکومت بھرپور تعاون کرے گی۔ہاکی کےکھیل کی بہتری کے لئے کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے۔ اس سلسلہ میں فیڈریشن اور دیگر فریقین کے ساتھ مل کر اقدامات کئے جائیں گے۔

وزیراعظم نے کہا کہ ان مشکل حالات میں ہم نے ملکی معیشت کو بہتری کی طرف گامزن کیا۔ اس وقت ہم نے کرکٹ، ہاکی اور دیگر کھیلوں کے کھلاڑیوں کو محکموں میں شامل کرنے کی پالیسی کا اعلان کیا تھا۔ اب اس کو یقینی بنایا جائےگاکہ ہمارے ممتازکھلاڑیوں کو اداروں میں ملازمت کے مواقع فراہم کئے جائیں تاکہ وہ کھیل کے میدان میں پوری طرح اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا سکیں اور انہیں وسائل کی کمی کاسامنا نہ ہو۔وزیراعظم نے وفاقی وزیر بین الصوبائی رابطہ اور چیئرمین وزیراعظم یوتھ پروگرام کو ہدایت کی کہ ایک ہفتے کے اندر اس پالیسی کااجرااور عملدرآمد یقینی بنایا جائے۔

اس موقع پر وزیراعظم نے پاکستان ہاکی ٹیم کے کھلاڑیوں، ایتھلیٹ ارشد ندیم اور پیرس اولمپکس کے لئےکوالیفائی کرنے والے رایفل شوٹنگ ٹیم میں چیک تقسیم کئے۔

 

 

پڑھنا جاری رکھیں

ٹرینڈنگ

Take a poll